bewafa poetry in urdu – Bewafa Shayari & Ghazal in Urdu | Best Urdu Poetry
My Dear Friends kya Aap bewafa poetry in urdu ki Talaash mein Hain ? Or Bewafa Shayari & Ghazal in Urdu Padhna Chahte hai? To Aap Sahi Jagah par hain, Aap yahan Se Bewafa Shayari & Ghazal in Urdu Padh Sakte hain. Dear Friend bewafa poetry in urdu Agar Aap ko Accha lage to apne doston ke sath Zaroor share Kare, Shukria.
bewafa poetry in urdu
مجھ پہ پھر ڈال کر ایک نظر کس لئے
کردیا تازہ زخمِ جگر کس لئے
ہوگئی ہے ہوا نا موافق تو کیا
چھوڑ دوں میں تیری رہ گذر کس لئے
اکیلا مجھے چھوڑ جانا ہی تھا
پھر بنے تھے میرے ہمسفر کس لئے
لاکھ مفلس ہوں میں دل کا مفلس نہیں
آپ نے پھیر لی ہے نظر کس لئے
رُخ سے گیسو خدارا ہٹا دو ذرا
بدلیوں میں چھپا ہے قمر کس لئے
اب تو آنکھوں میں باقی نہیں نیند بھی
رات ٹھہری ہے پھر میرے گھر کس لئے
پنے ہاتھوں میں مہندی رچاؤ نہ تم
ہے یہ تابش کا خون جگر کس لئے
عشق تابش نہیں جب کسی سے تمہیں
خود سے رہتے ہو پھر بے خبر کس لئے
(تابش ریحان )
حسن زندگی کی اب شوخیاں نہیں ملتی
اس چمن کے پھولوں پر تتلیاں نہیں ملتی
اس غریب کی جانب دیکھتا نہیں کوئی
جس کے بھوکے بچوں کو روٹیاں نہیں ملتی
میرے شہر میں جس دن حادثہ نہیں ہوتا
تبصرہ نگاروں کو سرخیاں نہیں ملتی
تو اگر مجاہد ہے چل دہکتے شعلوں پر
جنگ میں سیاہی کو چوڑیاں نہیں ملتی
اے زمین دھماکوں میں امن ڈھونڈنے والو
صلح و آشتی میں کیا کرسیاں نہیں ملتی
دیش کے غریبوں کا گھٹ گیا ہے دم شاید
اب کہیں بھی سننے کو سسکیاں نہیں ملتی
تو نے کیا نہیں دیکھا ہاتھی والے لشکر کو
اس کے گھر کے دشمن کی دھجیاں نہیں ملتی
شہر چھوڑ کر اپنا جاؤ گے کہاں محسن
امن کی محافظ اب بستیاں نہیں ملتی
( قاری احسان محسن )
یہ داستاں ہے عجب، رنج آشنائی کی
نہ پوچھ کس نے وفا، کس نے بے وفائی کی
میں بے گناہی کا اپنی ثبوت کیا دیتا
مرے خلاف شہادت تھی میرے بھائی کی
چمن پہ میرا بھی حق تھا اگر یہاں میں نے
نشیمن اپنا بنایا تو کیا برائی کی
انہیں میں پائی گئی یہ صفت جو کم تر تھے
بڑوں نے بات کبھی کی نہیں بڑائی کی
کبھی رسائی ہوئی بھی تو اس کو روئیں گے
وہ عمر ہوگی جو زندر نارسائی کی
یہ رنج ہے کہ بہت دیر ہو چکی ہوگی
کھلے گی قدر جب اچھائی اور برائی کی
وقار گہری بہت ہے ابھی سیاہی شب
ابھی سحر نہ ہو شاید شب جدائی کی
وقار مانوی (دہلی)
سلگتے ہونٹوں پہ شبنم کی داستاں رکھ دے
زمینِ سنگ پہ شیشے کا آسماں رکھ دے
ہمارے گاؤں کی کچھ لڑکیاں پرائی ہوں
کنواری مانگوں میں کوئی تو کہکشاں رکھ دے
مچل اٹھے جو کبھی حرفِ آرزو کوئی
مرا ضمیر مرے لب پہ انگلیاں رکھ دے
وہ خواب دیدے جو تعبیر کو ترستے رہیں
مچلتے بچے کی مٹھی میں تتلیاں رکھ دے
جوان بیٹی کو ڈولی نہ دے سکا مفلس
سرہانے قبر کے مہندی کی پتیاں رکھ دے
گلے لگالے مجھے موت اس طرح جیسے
سسکتے بچے کے ماتھے پہ ہونٹ ماں رکھ دے
ڈاکٹر نسیم نکہت (لکھنو )